Writer, Literature and Society
اگر میں ادیب ہوتا تو یہ سب کسی کہانی، افسانے یا خود نوشت وغیرہ کی صورت میں لکھتا۔ پھر ہر کسی کو پڑھتے ہوئے مزا بھی آتا اور میری بات بھی سب تک پہنچ جاتی۔ خیر مجبوری ہے جی! یونہی سیدھی سیدھی باتیں لکھ رہا ہوں۔ جیسے تیسے کر کے پڑھ لیجئے۔ ہاں تو باتیں یہ ہیں کہ شاعری، افسانے یا ناول وغیرہ صرف جذبات کے اظہار، قصے کہانیاں یا وقت گزاری کے لئے نہیں ہوتے۔ دراصل ان سب کے ذریعے معاشرے کے مختلف روپ و بہروپ کی عکاسی ہوتی ہے۔ الفاظ کے یہ مجموعے چیخ چیخ کر لوگوں کو سمجھاتے ہیں کہ دیکھو! خبردار ہو جاؤ! سدھر جاؤ!!!
کوئی قوم دنوں یا مہینوں میں نہیں بنتی۔ کسی ہجوم کو قوم بنانے اور معاشرے کی اخلاقی تربیت کرنے کے لئے سالہاسال کی ریاضت درکار ہوتی ہے۔ اس محنت و مشقت کا اہم کردار ادیب ہوتا ہے۔ میرے خیال میں بالواسطہ یا بلاواسطہ درحقیقت ادیب جیسے مفکر لوگ ہی معاشرے کی تربیت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں۔ کوئی ایک رخ دیکھتا ہے اور کوئی بڑی چھلانگ لگا کر دوسرا رخ بھی دیکھ لیتا ہے۔ جبکہ ادیب ان رخوں سے بہت اوپر ہوتا ہے۔ یوں سمجھیں کہ زمین کے گرد گھومتے سٹیلائیٹ کی طرح، ادیب معاشرے کے گرد گھوم گھوم کر اسے ہر زاویے سے دیکھتا ہے۔ ہر پہلو کا گہرا مشاہدہ کرتا اور ہر کردار کے ظاہر و باطن کو شدت سے محسوس کرتا ہے۔ ادیب معاشرے کی گلی سڑی تصویر سے ایک نیا رخ کشید کر لیتا ہے۔ یہ ایسا رخ ہوتا ہے کہ جو معاشرے کو خبردار کرتے ہوئے تہذیب و آداب سیکھاتا ہے۔
اردو افسانہ نگاری کے تابندہ ستارے سعادت حسن منٹو کو ہی دیکھ لیجئے۔انہوں نے اپنے افسانے ”نیا قانون“ کے ذریعے بتایا کہ ایک کوچوان، ایک دیہاڑی دار عام شہری کیسے سوچتا ہے؟ اس کی نفرت اور خوشی کے پیمانے کیا ہوتے ہیں اور وہ کس طرح ہر نئی چیز، نئے قانون یا چھوٹی موٹی تبدیلی سے امیدیں لگا لیتا ہے۔ اسے اسی میں ہی اپنی خوشحالی نظر آنا شروع ہو جاتی ہے۔ ایک دوسرے افسانے ”بلاؤز“ میں وہ بلوغت میں داخل ہوتے ایک لڑکے کی جسمانی و ذہنی کیفیت اور اس کی نفسیات کے اتار چڑھاؤ کا ذکر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ایک نوکر بچہ اس حالت سے کیسے گزرتا ہے۔ منٹو اس افسانے کے ذریعے جوان ہوتے بچوں کے حوالے سے والدین اور دیگر ذمہ داروں کے ذہنوں پر چڑھی ہوئی لاپروائی کی سخت تہہ پر ہتھوڑے مارتے ہیں۔ خیر ”ٹھنڈا گوشت“ میں تو منٹو معاشرے کا ایک پہلو دیکھا کر ایسا کوڑا مارتے ہیں کہ خود قاری ایک دفعہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ ویسے کئی بیچارے قسم کے لوگوں کا خیال ہے کہ منٹو کے بعض افسانے جیسے ”کالی شلوار“ اور ”دھواں“ وغیرہ فحش یا جنس نگاری کے زمرے میں آتے ہیں۔ لیکن فی الحال مجھے تو ان میں معاشرے کے ایک پہلو کی ایک خاص زاویے سے عکاسی کے سوا کچھ نظر نہیں آیا۔ منٹو نے تو زندگی کو اس کی اصل شکل میں پیش کیا۔ معاشرے کے بیانک اور دیگر چہروں کو سامنے لا کر لوگوں کو جھنجوڑا۔ ویسے منٹو نے کہا تھا کہ ”میرے افسانے تندرست اور صحت مند لوگوں کے لیے ہیں۔ نارمل انسانوں کے لیے جو عورت کے سینے کو عورت کا سینہ ہی سمجھتے ہیں اور اس سے زیادہ آگے نہیں بڑھتے۔“ بہرحال یہ علیحدہ بحث ہے، جس پر پھر کبھی بات ہو گی۔
مفکر اور فنکار لوگ کسی معاشرے کے رہبر اور ڈاکٹر ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں ان سب کے مجموعے سے ادیب بنتا ہے۔ ویسے ادیب الفاظ کا جادوگر بھی ہوتا ہے۔ وہ اپنے علم و ہنر کے ذریعے عوام کے ذہن، ضمیر اور احساس پر ایسے ایسے تازیانے برساتا ہے کہ شعوری یا لاشعوری طور پر لوگ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ادیب الفاظ کے جادو سے دکھی حال لوگوں کی مرہم پٹی بھی کرتا ہے۔ کہیں دردِ دل کی دکان کھولتا ہے تو کہیں مایوسی کے اندھیروں میں روشنی کی کرن جگاتا ہے۔ میرے خیال میں لوگ جو پسند اور طلب کرتے ہیں، اچھا ادیب اسی کے مطابق لکھتا ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ متوجہ ہوں۔ لیکن لکھتا کچھ یوں ہے کہ لوگ تحریر تو اپنی پسند کی پڑھ رہے ہوتے ہیں مگر ان کے ذہن پر چھاپ ادیب کی مرضی کی بنتی جاتی ہے۔ لوگوں کو پتہ بھی نہیں چلتا اور ادیب چپکے سے ان کی سوچ پر اثر انداز ہو جاتا ہے۔ یہی تو ادیب کا کمال ہے کہ وہ دیکھاتا چٹ پٹا ہے مگر ذہنوں پر اثر مٹھاس کا ہوتا ہے۔ لکھتا مزاح ہے لیکن اس سے معاشرے کی کردار سازی کرتا ہے۔ ادیب بیک وقت حکیم و حلوائی ہوتا ہے، جو دوائی ملی مٹھائی تیار کرتا ہے۔ جسے بیمار معاشرہ بخوشی کھا لیتا ہے اور تندرست ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی انسان کی زندگی آسان بناتی یا ہنر سیکھاتی ہے۔ جبکہ ادب (Literature) انسان کو ”انسان“ بناتا ہے۔ سائنس ایجادات کرتی ہے تو ادب ان کا بہتر استعمال سیکھاتا ہے۔ سائنس دکان کھولتی ہے تو ادب طرح طرح کی کہانیوں کے ذریعے انسان کو اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر کاروبار کرنے پر اکساتا ہے۔ سائنس اگر گاڑی بناتی ہے تو ادب بتاتا ہے کہ اس کا فلاں استعمال کرو، قانون کی پاسداری کرتے ہوئے چلاؤ اور دوسرے انسانوں کا خیال کرو۔ سائنس اچھی چیزیں بناتی ہے اور ادب اچھا معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔ جس معاشرے میں سب کچھ ہو مگر ادب نہ ہو تو پھر وہاں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی انسان سسک سسک کر مرتا ہے۔ معاشرے میں سائنس ہو نہ ہو لیکن اگر ادب سے لگاؤ موجود ہو تو اس معاشرے کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ دراصل ادب کا یہ بھی کمال ہے کہ وہ انسانوں میں ہمت پیدا کرتا ہے اور آگے سے آگے بڑھنے پر قائل کرتا رہتا ہے۔ یوں ذہن و کردار سازی ہوتی چلی جاتی ہے اور معاشرہ ترقی کی منازل طے کرتا چلا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں معاملہ کچھ الٹ ہے۔ یہاں سائنس تو ہے مگر ہم لوگ ادب سے بہت دور ہیں۔ ہمارے پاس گاڑی ہے اور چلانی بھی آتی ہے مگر ہمیں یہ خیال ہی نہیں کہ سڑک ہمارے باپ کی جاگیر نہیں اور اس پر ساری قوم کا حق ہے۔ ہمیں یہ احساس ہی نہیں کہ ہماری چھوٹی سی غلطی کئی بے گناہ لوگوں کی جان لے سکتی ہے۔ ہمارے ہر بڑے عہدے پر پڑھے لکھے مگر اکثر احساس سے عاری لوگ ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کام اور ہنر کی تعلیم تو حاصل کی ہوتی ہے مگر ادب سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ دراصل ادب انسان کے مزاج کو لطیف کرتا ہے، اس میں احساس پیدا کرتا ہے اور بعض دفعہ سوچ پر ہتھوڑے مار مار کر ضمیر کو جگاتا ہے۔ کسی ”سائنسی تعلیم یافتہ“ کو غلطی کرنے پر جب لوگ یہ کہتے ہیں کہ تم پڑھے لکھے ہو کر اخلاق سے گری ہوئی حرکت کر رہے ہو، تب مجھے بہت ہنسی آتی ہے۔ وہ کیا ہے کہ اس شخص کے پاس علم تو ہے مگر اس نے صرف اپنے ہنر کی تعلیم لی ہے جبکہ اخلاقیات تو اسے ”علم و ادب“ نے سیکھانی تھی اور ہمارے ہاں یہ چیز کم ہی ملتی ہے۔
جس معاشرے میں ادب ردی سمجھا جائے۔ جہاں کتابوں کے بدلے ”سویاں“ لے لی جائیں اور قیمتی اوراق پر ”پکوڑے“ فروخت ہوں۔ جہاں ادب کو صرف بے فکرے لوگوں کا مشغلہ اور ادیب کو ”کام کا نہ کاج کا“ سمجھا جائے۔ جس معاشرے میں ادب کی اس حد تک بے ادبی کی جائے کہ کتابیں ہی ”فٹ پاتھ“ پر آ جائیں تو پھر اس معاشرے کو بھی فٹ پاتھ پر آنے (بھکاری بننے) سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پھر اس معاشرے کا وہی حال ہوتا ہے، جیسا کہ ہمارا ہو رہا ہے۔